Orhan

Add To collaction

حدت عشق

حدت عشق
از قلم حبہ شیخ
قسط نمبر27

چلو اب سب میری بات سنو...... 
فائز مائیک لے کر کھڑا ہوا اور سب کو اپنی طرف متوجہ کیا... 
ہاں بول کیا ہے؟؟؟؟
شاہ زل نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا....... 
اوۓ چپ کر اگر تو دولہا نہیں ہوتا تو میں تجھے ضائع کر دیتا... 
فائز نے اس کی طرف دانت پیستے ہوۓ کہا...... 
جب کہ اس کی بات پر سب ہنسنے لگے  مگر  اس مزاق پر سارہ کا دل بے چین ہوا اور وہ دل میں اللہ سے اس کی خیر کی دعا مانگتے ہوۓ سامنے دیکھنے لگی.... 
آپ کی بھرپور تالیوں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 ابھی وہ مزید بولتا  کہ ان کے ایک کزن نے مائیک لیا اور جلدی سے بولا.... 
بندر اور بندری آپ کی بھرپور تالیوں میں کرتب دیکھانے آۓ ہیں.....  تالیاں 
اور فائز اس کو خونخوار نظروں سے دیکھنے لگا جبکہ اسکی بات پر سب کا قہقہ پڑا...... 
رات کی رنگینی دیکھو کیا رنگ لای ہے.... 
ہاتھوں کی مہندی بھی جیسے کھل کھل آئ ہے...... 
مستیوں کنے آنکھ یوں کھولی.... 
ہو۔۔۔۔۔۔وووووووو۔۔۔۔۔۔۔
 جھومتی دھڑکن یہی بولی.... 
بلے.. بلے..بلے.. بلے..بلے...
بلے بلے ناچے ہیں باورہ جیا... 
بلے بلے لے جاۓ گا ساورہ پیا... 
دونوں گانے کے ایک ایک سر پر تھرتھرا رہے تھے...  
لان میں سب کی سیٹیاں اور تالیاں گونج رہی تھی...... 
آہستہ آہستہ گانے کے بول ختم ہورہے تھے.... دونوں میاں بیوی نے سر جھکایا اور سٹیج سے نیچے اترے اور  سب گھر والو کو اسٹیج پر لے آۓ اور سب ناچنے لگے.......
ارحم شاہ زر, شاہ ذل , فائز چاروں مل کر بھنگڑے ڈالنے لگے۔۔
 جبکہ سارہ صرف ہاتھ ہلا رہی تھی.... اور رمشاء میڈم تو بلکل پاگل ہوگئی تھی.... 
اور خبیب شاہ بس لبابہ کو دیکھنے میں مصروف تھا... 
سب کا شکریہ شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 مگر ابھی  نانو کہہ رہی ہے ختم کرو.... 
بس آخری گانا شاہ ذل بھائ میری دوست کے نام گائے گے.... 
رمشاء نے سب کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا جبکہ اس کی بات سنتے ہی شاہ زل نے سارہ کی طرف دیکھا سارہ کے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی..... 
شاہ ذل چلتے ہوے رمشاء کے پاس آیا اور مائیک لیتے ہوۓ گویا ہوا..... 
ٹھیک ہے مگر صرف دو بول اس سے زیادہ نہیں..... 
ٹھیک ہے چلیں گائیں..... 
اب.........
 اہمممممممم.......
 شاہ ذل نے گلا کھنکھارا اور گانا شروع کیا.... 
ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے....
مگر جی نہیں سکتے تمہارے بنا..
اسکا گانا سنے سب نے ہوٹنگ کی جبکہ سارہ کو لگا اسکا دل پسلیاں توڑ کر باہر آ جاۓ گا... 
چلو بچو...سب اندر چلو.....
کل جلدی اٹھنا ہے.... آئمہ بیگم نے سب کو دیکھتے ہوۓ کہا... 
سب جی کرتے ہوۓ اپنے کمرے میں چلے گئے...... 
لبابہ اپنی ماں کو اپنے کمرے میں لے آئ اور شاہ ذل سارہ اپنے کمرے میں چلے گئے....
قریبا آدھے گھنٹے بعد سب فریش ہو کر اپنے بستر پر لیٹ گئے..... 
لبابہ اپنی ماں کو دیکھ کر مخاطب ہوئ..... 
 مما۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں آپ کی گود میں سر رکھ لوں.... 
یہ بھی کوئ پوچھنے والی بات ہے... میری جان ادھر آؤ... 
فاطمہ بیگم نے لاڈ سے اسے دیکھتے ہوۓ ہاتھ پھیلاے اور لبابہ اپنی مما کے سینے سے لگی اور بےآواز رونے لگی.... 
مما مجھے معاف کر دیں نہ میں اسے تھپڑ مارتی نہ بابا اور دادو ہم سے دور ہوتے..... 
بس میرے بچے جو ہونا تھاوہ ہوگیا.. قسمت میں یہی لکھا تھا میری بچی.... ۔۔۔۔
اور تم اکیلی کیوں رہتی ہو...خبیب کے ساتھ رہا کرو.... 
فاطمہ شاہ اسکے سر پر انگلیاں پھیرتے ہوۓ لبابہ سے پوچھنے لگی... 
لبابہ سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھتے ہوۓ بولی.... 
مما......یہ آپ کہہ رہی ہیں جب آپ آئ تھی تب بھی
 آپ نے کچھ نہیں کہا اسے..... آپ کیسے کہہ سکتی......
بیٹا.......آپ جانتی نہیں اسے.. نہ میں کچھ آپکو بتاوں گی... 
لیکن اتنا جان لو اس نے خود کہا کہ اس نے غلط کیا جسکی وہ مجھ سے معافی مانگ چکا ہے.... پچھلے پانچ دنوں میں میرے پاس اتا رہا ہے.. 
مگر جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ کیوں بنا ہے ایسا تم نے کبھی جاننے کی کوشش کی... ؟؟؟؟
میں چاہتی ہوں تم اپنی زندگی میں آگے بڑھو.. اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو... 
فاطمہ شاہ اسے دیکھتے ہوۓ سمجھانے لگی..  
مما میں نہیں سمجھنا چاہتی... دراصل مجھے اس سے نفرت.....۔۔۔۔۔
ابھی وہ آگے بولتی فاطمہ شاہ نے اسے ٹوکا..... 
ششش پگلی....۔۔۔۔۔
خود کو بہلانا چھوڑ دو..تم نہیں کرتی اس سے نفرت پوچھو اپنے دل سے...
 یہ بال میں نے دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں.
ایک دفعہ سمجھو اسے اور اپنے دل کی سنو... زندگی بہت خوبصورت ہے... میری جان.. تم اسے معاف کر کے دیکھو.. زندگی میں کبھی بھی تمہیں تکلیف نہیں دے گا.... 
وہ غصیلے کے ساتھ ساتھ بہت پیار کرنے والا ہے.... 
اور لبابہ کو لگ رہا تھا جیسے وہ ٹھیک کہہ رہی ہے.... 
مگر..... مما......
اگر مگر کچھ نہیں میری جان اب اٹھو... اور...جا کر دیکھو اسے....
صبح سے جب میرے پاس  تھا.. بھوکا تھا.. پتا نہیں کچھ کھایا ہے یا نہیں.
اور....ہاں ایک اور بات.....
میں نے اپنا شریک حیات کھویا ہے... تم نے صرف اپنا باپ....
میں معاف کر چکی ہوں تو میرا نہیں خیال تمہیں اسے سزا دینی چاہیے... جتنی دے چکی ہو اتنا کافی ہے... 
چلو اٹھو..... اب جاؤ....  فاطمہ شاہ اسکا ہاتھ پکڑ کے اٹھاتے ہوۓ بولی.... 
مگر...... کوئ اگر مگر نہیں چلو اب اٹھو اور جاؤ اور بغیر کوئ بات کیے واپس نہیں آنا....
لبابہ پریشان ہوتے ہوۓ اپنے بھاری قدم اٹھاتی شاہ کے روم کی طرف آئ اور دل کے شور  کو دباتے ہوۓ دروازہ کھٹکھٹایا...
پس کے جواب ملتے ہی لبابہ اندر داخل ہوئی کمرے میں اندھیرا ہی اندھیرا تھا بس ایک چھوٹا سا شعلہ جلتا ہوا نظر آیا۔۔۔۔۔
 یقینا وہ  سگریٹ پیتا نظر آرہا تھا لبابہ نے ہاتھ بڑھا کر لائٹس ان کی... 
 کمرے میں لائٹ آن ہوتے دیکھ خبیب نے  اپنی لال آنگارا آنکھوں سے مڑ کر دیکھا تو پل بھر کے لئے ساکت ہوا........
 لبابہ چلتے ہوئے اس کے  پاس آئی اور اس کے ہاتھ سے سیگرٹ لے کر آیش ٹرے میں رکھی...
 مجھے آپ سے کوئی بات  کرنی.... 
 مجھے بھی تم سے کوئی بات  کرنی......  
شاہ نے بھی اس کی  طرف دیکھ کر بولا....
 لبابہ نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا...
 جیسے کہہ رہی ہو کیا...
شاہ  مطلب سمجھتے ہوئے دراز کی طرف آیا اور کچھ پیپرز نکالتے ہوئے اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا....
یہ لو تمہاری آزادی کے کاغذات سوچ رہا تھا کہ تمہیں کل دوں گا مگر شاید تمہیں ایک دن کا بھی انتظار نہیں  آج آخری دن ہے خبیب شاہ کے تمہاری زندگی سے نکلنے کا........
 آج کے بعد میں تمہیں اپنا چہرہ نہیں دکھاؤں گا....
اور لبابہ بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی....
 اسے لگا کی کمرے کی پوری چھت ملبے سمیت اس کے سر پر آ گری ہو.....
شاہ آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھ رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا کتنے ضبط سے اس نے یہ سب کہا ہے...
 لبابہ اس کے قریب ہوئی اور اس کا گریبان  پکڑ کر  اپنے چہرہ اس کے قریب کیا اور درد کی شدت لیے گویا ہوی...
مسٹر  خبیب شاہ  تم ہر بار مجھ سے بغیر پوچھے  میری زندگی کا فیصلہ نہیں کرسکتے سمجھے....
 وہ مزید بولتی کے شاہ نے  اس کے لبوں پر انگلی رکھے اسے خاموش کر دیا.....
ششششششششش.....
 یہ میری زندگی کا فیصلہ نہیں ہے میں تو تمہیں خود سے دور کر رہا ہوں تاکہ تم سکون سے کسی اور کے ساتھ زندگی گزار لو........
بلکہ زین سے اچھا فیصلہ کوئی نہیں میں اس سے تمہارے لیے......
 ابھی مزید بولتا کے لبابہ کے تھپڑ نے اسے مزید بولنے سے رکا اور شاہ  اس کے تھپڑ مارنے سے اس کی طرف دیکھنے لگا جبکہ کہ لبابہ  اس کا گریبان پکڑ کر ہر ایک بار پھر بولی...........
shut up.......
 آپ کو شرم نہیں آتی اپنی بیوی کو کسی اور کے ساتھ
 انگیجڈ کرتے ہوئے......
 اسے خود سے قریب دیکھ کر شاہ نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے قریب کیا اور روندے ہوئے لہجے میں بولا....
 تم سوچ نہیں سکتی کس قدر اذیت میں ہوں میں  مگر تمہیں خود سے الگ کسی اور کے ساتھ خوش دیکھنا ہی میرے لئے سزا ہے.
 میں نہ ہی نفس کا غلام ہوں نہ ہی تمہیں ہاتھ لگانے کے بہانے کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بس تمہارے آس پاس اس لیے رہتا ہوں  کے تم میرے ہونے کا احساس کرو....
مگر تم میرے نام سے بھی نفرت کرتی ہوں اس لئے خلا کے  پیپرز تیار کروائیں ہیں کہ میں نہیں تم مجھے اپنی زندگی سے نکال پھینکو.....
 یہ اختیار بھی میں تمہیں دیتا ہوں.....
لبابہ اس کی بات سنے ہنسے  لگی اور ہنستے ہوئے بولی....
کیا میں یہ سمجھوں کہ تم نے ہار مان لی... ہار گئے...ہو مجھ سے میری نفرت سے...
 ہاں ہار چکا ہوں..تھک گیا ہوں.. زندگی سے خود سے.....تم سے...جینے کی چاہ نہیں نہیں.... موت کو گلے لگا نہی سکتا....
 مگر اللہ سے دعا کی ہے کہ جیسے تم مجھے چھوڑو میں مٹی تلے دفن ہو جاؤں اس کی بات سنتے لبابہ اس سے تڑپ کر دیکھا......
 مگر شاید وہ اسے سمجھا نہیں سکتی تھی لبابہ نے اپنے دونوں ہاتھ پیالے کی شکل بنا کر شاہ کے چہرے پر رکھے اور اونچی ہو کر  اس کی کی  آنکھوں پر لب رکھے...
جب کہ شاہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا کے یہ کیا کر رہی ہے پھر اس کے ماتھے پر...
میں لبابہ خبیب شاہ  آپ سے دور جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی کر دیا  معاف آپ کو.........
 اور شاہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا......
لبابہ  آہستہ آہستہ اس سے خود سے مزید قریب کیا اور بے یقینی سے پوچھنے لگا......
کیا سچ میں تم نے مجھے معاف کر دیا.....
 لبابہ نے  آنکھوں میں آنسو لے ہاں میں سر ہلایا.......
 شاہ نے اس سے گلے سے لگایا اور زور سے رونے لگا اور لبابہ اس کا سہارا پاتے ہی ہچکیوں سے رونے لگی.....
 اور روتے ہوئے بولی.....
 کیوں کہا ایسا آپ نے.ایک تھپڑ کی اتنی بڑی سزا....
 پھر اس رات جو بھی ہوا سب غلطی کہہ دیا... مجھے لگا آپ نے مجھے میرے وجود سمیت کسی گہری کھائی میں پھینک دیا ہو...
شاہ نے اسے الگ کیا اور اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا.....
 میں اندھا ہوگیا تھا....
 بچپن سے اپنوں کا ساتھ تو ملا مگر دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں تھا مجھے معاف کر دو.....
اب کبھی ایسا نہیں ہوگا....
میں اعتراف کرتا ہوں کہ وہ رات میری زندگی کی حسین راتوں میں سے ایک تھی ....
میں چاہ کر بھی خود سے دور نہیں کر سکتا کبھی ایسا ہو تو میری روح  میرے وجود کا ساتھ چھوڑ دے اور اس کی بات سنتے لبابہ نے تڑپ کر نہ میں سر ہلایا... 
 اب نہیں شاہ..... ایسی بات نہیں کرو....
دل دکھتا ہے اللہ آپ کو میری زندگی بھی لگا دے...
شاہ آنکھوں میں نمی لیے اسے دیکھتا رہا  پھر جھک کر اپنا پیار بتانے لگا.....
 تھوڑی دیر بعد ہو اس سے دور ہوا اور اس کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے گویا.....
خبیب شاہ  تم سے بے حد بے انتہا محبت کرتا ہے کبھی تمہیں تکلیف دینے کا سوچ نہیں سکتا یہ کہتے ہیں شاہ نے اسے باںہوں میں اٹھایا اور بیڈ لایا.......
 اور آرام سے بیڈ پر بٹھا کر خود  زمین پر بیٹھا اور اس کی گود میں سر رکھے آنکھیں بند کیں........
لبابہ  نے اسے کسی بھی عمل سے نہیں روکا تھا آج وہ اپنے شوہر کو ہر برائی اور اچھائی سمیت اپنانے کے لئے آئی تھی.......
 شاہ.............لبابہ نے اس کی سر میں انگلیاں پھیرتے ہوئے مخاطب کیا.......
جی شاہ کی جان........
 میں چاہتی ہوں کل میں بھی آپ کے لئے سجوں سوروں.....
شاہ نے پٹ سے  آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھنے لگا.....
ٹھیک ہے پھر میں ابھی مما کو کہتا ہوں....شاہ  اٹھنے لگا تو لبابہ نے اس کے کندھے پر زور ڈالتے ہوئے دوبارہ بھٹا لیا.. .
نہیں شاہ...... کل رات میں خود بنوں گی دلہن آپ کسی کو نہ بتائیے گا...
...پلیززززز
شاہ اس کی بات سنتے  مسکرانے لگا اور زمین سے اٹھ کھڑا ہوا اور ایک جھٹکے سے اسے کھینچ کر  مخاطب ہوا.....
واہ بھئی..... ہماری بیوی تو آج ہمیں شوکڈ کیے  جا رہی ہے  کہیں ہم خوشی سے ہی اللہ کو پیارے نہ ہوجائیں...
 لبابہ نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا اور آنکھوں میں آنسو لیے ناراضگی سے بولی...
 بار بار یہ مت کہا کریں....
 ہٹیے پیچھے مجھے آپ سے بات نہیں کرنی..
 اسے دھکا دیتی ہوئی دورجانے لگی مگر شاہ نے اس کا بازو پکڑا پھر اسے قریب کیا.
جانم.....۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
 ہم سے ناراضگی بھی یونا دیکھائیے.. ..
 کہ ہم آپ کے دیوانے ہوجائیں....
 ہم تو آپ کے لئے رانجھے بنے  بیٹھے ہیں..۔۔۔۔
کبھی جو ان کو نظر بھر کے  دیکھیں.. 
تیرا روٹھنا اچھا لگتا ہے...
تیرا مسکرانا سکون دیتا ہے...
 تیری باتیں کانوں میں رس گھولتی ہیں... 
تیرا دور جانا اذیتوں کو چھو جاتا ہے...
تیری بے رخی تڑپاتی ہے....
 تیری دل لگی ہمیں معتبر کرتی...
جانم...... ۔۔۔۔!!!!!!
...... ذرا رحم کیجئے.
...... ہم پر کرم کیجیے.
..... ہم جو راہ تلے بیٹھے.
...ہمارے دل میں قدم تو رکھیے
...دروازے بند کر دیں کسی اور کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
بس تم میں ہوں گے اور ہماری چھوٹی سی دنیا....
 شاہ نے ایک جذبے کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کہا...
لبابہ  نے مسکراتے ہوئے دیکھا......اور اسے دور کرتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگی اور مڑتے ہوۓ بولی...... 
جانا۔۔۔..۔۔۔۔۔؟!!!!!!
ہم بھی تیار ہیں قدم جمانے کے لئے.... 
...ذرا صبر کیجئے..
...ذرا ٹھہریے..
انتظار کیجیے.........
..شراکت برداشت نہیں بس دل لگی قائم رکھیے..
لبابہ کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئ.....
جبکہ شاہ اس کی بات سنتے ہنستے ہوۓ بیڈ پر لیٹ گیا........ 
آج کتنے دنوں میں وہ چین سے سوئے گا.. 
اللہ تیرا شکر ہے تو نے زندگی لوٹا دی...
وہ یہ کہتے ہوئے  آنکھیں موند گیا...۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments